مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق امریکی کمپنی ایکسن موبل کی پاکستان ایل این جی ٹرمینل منصوبے سے دستبرداری اور ٹی اے پی آئی پائپ لائن منصوبے میں تاخیر ایران کے لئے پاکستان کو گیس برآمد کے معاہدے پر عمل درآمد کرنے کا ایک اچھا موقع ہوسکتا ہے۔
امریکی کمپنی ایکسن موبل جو پاکستان میں ای این جی ٹرمینل تیار کرنے کے کنسورشیم کی رکن تھی اس نے حال میں اس پروجیکٹ سے خارج ہونے کا اعلان کیا ہے ۔
ایکسن موبل کے ترجمان نے کہا کہ اس منصوبے کو چھوڑنے کی وجہ ایندھن کی کم قیمتوں کے باوجود آپریٹنگ اور سرمایہ کاری کے اخراجات میں تیزی سے کمی کا فیصلہ تھا۔ کنسورشیم میں شامل ہونے کا ایکسن موبل کا بنیادی ہدف ال ان جی کو پاکستان برآمد کرنا تھا۔ پاکستانی حکومت نے ایکسن سمیت پانچ کمپنیوں کو ال ان جی ٹرمینل بنانے کا اختیار دیا ہے ، لیکن اس نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ ان کمپنیوں کو کوئی ضمانت فراہم نہیں کرے گی اور اس منصوبے کا خطرہ کمپنیوں کو خود برداشت کرنا ہوگا ۔
ایکسن کمپنی کے پاکستان میں داخل ہونے کے بعد ، اس کو حکومت پاکستان سے ضروری لائسنس حاصل کرنے میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس منصوبے کو چھوڑنے کا فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا گيا ہے جب ایک طویل عرصے کے بعد بالآخر ان اجازت ناموں کا معاملہ حل ہوگیا ہے۔
پاکستان کو گیس کی ضرورت کے پیش نظر ، ایران سے گیس کی درآمدات میں اقتصادی صرفہ جوئی اور توانائی کی فراہمی میں سکیورٹی امور کی آسانی ، اورسب سے اہم بات یہ ہے کہ ایران کے لئے اقتصادی پابندی کے دوران گیس کی برآمدات سے ہونے والی آمدنی ایسا قدم ہوگا جودونوں ممالک کے لئے مفید اور سود مند ہوگا۔
پاکستان اور ہندوستان کو گیس کی برآمدات کے سلسلے میں مذاکرات کا آغاز سن ساٹھ شمسی کی دہائی کے آخر میں ہوا تھا یہ گیس پائپ لائن صلح پائپ لائن کے نام سے معروف تھی لیکن طویل مذاکرات کے بعد ہندوستان نے خود کو اس منصوبہ سے الگ کرلیا۔ گیس کی برآمد ایران کے اقتصاد میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے اور ایران کو موجودہ صورتحال کے پیش نظر ہمسایہ ممالک کی مارکیٹوں میں گیس برآمد کرنے کے سلسلے میں کوششوں کو دوچنداں کرنا چاہیے اور پاکستان کو گیس کی فراہمی کے سلسلے میں تلاش و کوشش جاری رکھنی چاہیے کیونکہ اقتصادی صرفہ جوئی کے لحاظ سے یہ اقدام دونوں ممالک کے فائدے میں ہوگا۔
آپ کا تبصرہ